The Sin of Fault-Finding: An Islamic Perspective on Protecting Ourselves
There are inevitably many people around us who are constantly preoccupied with finding the vices and faults of others.
The mental state of such individuals is such that they consider themselves to be flawless, yet they harbor many insecurities about themselves. In cases where they point out the evils in others, these individuals have often experienced similar issues in their past, which is why they project faults onto others.
What is most surprising is that if someone points out their wrongdoing or suggests they should not engage in such behavior, they are not prepared to admit their mistakes. When their actions cause turmoil—breaking hearts, causing tears, or bringing difficulties into someone's life—they offer a seemingly beautiful sentence in their defense.
Such people always say:
"That's all I said, just that, nothing more." "Why the need for such a reaction or concern? We had your best interests at heart," and so on.
If we consider the reasons, many will say that people who have endured hardships in their past, who have faced numerous challenges, tend to have hardened hearts. Circumstances can harden a person. Some justify such behavior by saying, "He is older; what's the harm if he did this?" However, being older does not mean one has the right to humiliate another person at any time in any way they please.
Many women, upon becoming a mother-in-law, daughter-in-law, sister-in-law, or other familial roles, spoil their relationships or become the cause of spoilage in others' relationships due to this behavior. As a result, women are often labeled as "tongue-lashers."
In my view, this also occurs because people who haven't discovered the purpose of their lives, who don't have much to occupy themselves with, or those who have spent 30-40 years of their lives without understanding, trying to change themselves, strengthening their relationship with themselves, or connecting with God, engage in such behavior unconsciously in search of peace and enjoyment in life.
They derive the same pleasure from speaking ill of others as they do from eating their favorite food or drinking their favorite coffee, and finding faults in others becomes their favorite pastime. They are compelled by habit.
From an Islamic perspective, Allah has strictly forbidden backbiting.
What is backbiting?
Backbiting is speaking about someone's true faults behind their back. However, when people highlight the vices and faults of others, they often include things that are not true, which amounts to slander. These individuals commit a grave sin, yet they do not understand the magnitude of their actions.
The point is that such people cannot be reasoned with.
Therefore, if you have such individuals in your life, do not let them affect your heart.
Yes! You must learn how to deal with them, how to maintain a distance, and if someone accuses you of being evil or finding fault, then you should break this habit within yourself as soon as possible, or you may face significant problems moving forward.
ہمارے ارد گرد لازمی ایسے بہت سارے لوگ ہوتے ہیں جو ہر وقت دوسروں کی برائیاں اور ان کے نقص نکالنے میں مصروف ہوتے ہیں۔
ایسے لوگوں کی ذہنی حالت ایسی ہوتی ہے کہ یہ لوگ اپنے اپ کو مکمل طور پر پرفیکٹ سمجھتے ہیں لیکن ان کے اندر اپنی ذات کو لے کر ہی بہت ساری insecurities ہوتی ہیں۔ جن معاملات میں یہ دوسروں کے اندر برائیاں نکالتے ہیں انہی معاملات میں یہ لوگ خود ماضی میں سفر کر چکے ہوتے ہیں اسی لیے یہ لوگ دوسروں میں خامیاں نکالتے ہیں۔
اور سب سے بڑھ کر حیرانی کی بات یہ ہے کہ اگر انہیں کوئی سمجھائے کہ اپ یہ غلط کر رہے ہیں یا اپ کو ایسا نہیں کرنا چاہیے تو یہ ماننے کو تیار نہیں ہوتے کہ انہوں نے کچھ غلط کیا ہے۔ اور جب ان کی وجہ سے کہیں پر فساد پڑتا ہے، کسی کا دل ٹوٹتا ہے، کوئی روتا ہے یا کسی کو اپنی لائف میں ان کی وجہ سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو یہ اپنے بچاؤ میں بہت حسین جملہ پیش کرتے ہیں۔
ایسے لوگ ہمیشہ کہتے ہیں کہ!
“میں نے تو بس اتنا کہا تھا، بس اتنا، بس اتنا سا تو کہا تھا۔”
اس پر اتنا زیادہ ری ایکٹ کرنے کی یا اتنا زیادہ پریشان ہونے کی کیا ضرورت تھی ہم نے تو تمہارا بھلا چاہا تھا وغیرہ وغیرہ۔
اگر اس کی وجہ کی بات کریں تو بہت سارے لوگ یہ کہیں گے کہ جن لوگوں نے اپنے ماضی میں مشکلات کو دیکھا ہے بہت سارے مسائل کا سامنا کیا ہے ان کا دل تھوڑا سخت ہو جاتا ہے حالات انسان کو سخت بنا دیتے ہیں یا پھر کچھ لوگ یہ جسٹیفیکیشن دیتے ہیں کہ وہ تو بڑا ہے اس نے ایسا کر لیا تو کیا ہوا۔ بڑے ہونے کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہوتا ہے کہ اپ سامنے والے کو کسی بھی وقت اپنے انداز میں ذلیل و خوار کرتے رہیں۔
بہت سی عورتیں ساس، بہو، بھابھی، نند، دیورانی یا جٹھانی بننے کے بعد اسی عارت کی وجہ سے اپنے رشتے خراب کر لیتی ہیں یا دوسروں کے رشتوں میں خرابی کی وجہ بنتی ہیں، اور انہی عورتوں کی وجہ سے عورتوں کو “زبان درازی” کا لقب دیا جاتا ہے۔
میرے نزدیک اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ وہ لوگ جو اپنی زندگی کے مقصد کو نہیں پہچانتے جن کے پاس کرنے کے لیے کچھ بہت زیادہ کام نہیں ہوتے یا وہ لوگ جو اپنی زندگی کے 30 40 سال گزار چکے ہیں اور اج تک انہوں نے خود کو نہیں سمجھا، خود کے اندر تبدیلی لانے کی کوشش نہیں کی نا ہی انہوں نے اپنا تعلق اپنے ساتھ مضبوط کیا اور نا ہی رب کی ذات کے ساتھ خود کو جوڑا، ایسے لوگ زندگی میں سکون اور مزے کے لیے لاشعوری طور پر یہ کام کرتے ہیں۔
دوسروں کی برائی کرنے انہیں سے وہی مزہ ملتا ہے ان کے دماغ سے وہی نیورو کیمیکل اور ہارمونز نکلتے ہیں جو اپ کو اپنا من پسند کھانا کھا کر یا اپنی من پسند کافی پی کر ملتا ہے، اور دوسروں کے نقص نکالنا ان کی favorite hobby ہوتا ہے یہ اپنی عادت کے ہاتھوں مجبور ہوتے ہیں۔
اسلامک پوائنٹ اف ویو سے بھی دیکھا جائے تو اللہ تعالی نے غیبت کرنے کو سختی سے منع فرمایا ہے۔
غیبت کیا ہوتی ہے؟
“غیبت کسی کے سچے عیب کو اس کی پیٹھ پیچھے بیان کرنا ہوتا ہے” لیکن جب لوگ دوسروں کی برائیاں اور نقص نکالتے ہیں تو اس میں سے بہت ساری چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو لوگوں میں موجود ہی نہیں ہوتیں یعنی یہاں بات بہتان تک جا پہنچتی ہے۔ یہ لوگ کتنے بڑے گناہ کے مرتکب ہوتے ہیں لیکن یہ لوگ نہیں سمجھتے۔
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ان لوگوں کو نہیں سمجھایا جا سکتا۔
اس لیے اگر اپ کی زندگی میں اپ کے ارد گرد ایسے لوگ موجود ہیں تو اپ ان کی باتوں پر اپنی دل آزاری مت ہونے دیں۔
ہاں! اپ یہ ضرور سیکھیں کہ اپ نے ان کو ڈیل کیسے کرنا ہے اور ان سے فاصلہ کیسے بنا کر رکھنا ہے اور اگر کوئی اپ سے شکایت کرتا ہے کہ اپ کسی کی برائی ہے یا نقص نکالتے ہیں تو جتنا جلدی ہو سکے اپنے اندر سے اپنی اس عادت کو ختم کر لیں ورنہ اگے چل کر اپ کو بہت ساری مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
ماہر نفسیات معین اسلم